قرآنِ
کریم میں قیدیوں کی ایک قسم کے لئے "فی الرقاب" کی اصطلاح آئی ہے۔ اِس کے
معنی درحقیقت وہ لوگ ہیں جنہیں دورِ جہالت میں پکڑ کر غلام بنا لیا جاتا
تھا۔
اُس دور میں تو فی الرقاب (جن کی گردن میں طوق ڈال رکھا ہو) کی ایک ہی قسم ہوتی تھی لیکن ہمارے اِس دورِ تہذیب میں اِس کی متعدد قسمیں ہیں اور وہ قِسمیں ایسی ہیں کہ اُن کے طوق محسوس طور پر کہیں دکھائی نہیں دیتے۔ حتیٰ کہ جن کی گردنوں میں وہ طوق پڑے ہوتے ہیں، خود انہیں بھی وہ کہیں نظر نہیں آتے۔ لیکن وہ بندھے ہوئے اِس طرح ہوتے ہیں کہ اُن کے جسم تو ۤآزاد ہوتے ہیں لیکن قلب و دماغ اور روح مقید۔
قرآن نے "بندھی ہوئ گردنوں" (فی الرقاب) کے چُھڑانے کو بڑا کارِ خیر بلکہ دین کا بنیادی تقاضا بتایا ہے (90:13)۔
اُس دور میں تو فی الرقاب (جن کی گردن میں طوق ڈال رکھا ہو) کی ایک ہی قسم ہوتی تھی لیکن ہمارے اِس دورِ تہذیب میں اِس کی متعدد قسمیں ہیں اور وہ قِسمیں ایسی ہیں کہ اُن کے طوق محسوس طور پر کہیں دکھائی نہیں دیتے۔ حتیٰ کہ جن کی گردنوں میں وہ طوق پڑے ہوتے ہیں، خود انہیں بھی وہ کہیں نظر نہیں آتے۔ لیکن وہ بندھے ہوئے اِس طرح ہوتے ہیں کہ اُن کے جسم تو ۤآزاد ہوتے ہیں لیکن قلب و دماغ اور روح مقید۔
قرآن نے "بندھی ہوئ گردنوں" (فی الرقاب) کے چُھڑانے کو بڑا کارِ خیر بلکہ دین کا بنیادی تقاضا بتایا ہے (90:13)۔
ٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓ
ٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓ
یہ ہے صحیح مطلب حیاتِ دنیا کے لہو و لعب ہونے کا نہ یہ کہ زندگی فی اصلہٖ بیکار‘ بے مقصد‘ کھیل تماشا ہے۔ قرآن کا یہ مقصد نہیں بلکہ اس نے اس کے برعکس یہ کہا ہے کہ جو لوگ حیاتِ دنیا کو محض کھیل تماشا (لعب) سمجھتے ہیں اور اسے (SERIOUSLY) نہیں لیتے‘ وہ تباہ ہوجاتے ہیں۔