لاہور میں بلاول ہاؤس سیاسی سرگرمیوں کا مرکز
علی سلمان
بی بی سی اردو ڈاٹ کام، لاہور
آخری وقت اشاعت: جمعرات 14 فروری 2013 , 01:29 GMT 06:29 PST
اگرمعاملات کو وسیع تر تناظر میں دیکھا جائے تو لاہور میں پیپلز پارٹی کے مستقل بلاول ہاؤس کا قیام انتخابی سیاست میں ایک اہم پیش رفت ہے لیکن اگر ایک فرد کی اہمیت کو سمجھا جائے تو اس جیالے کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا جسے اس کے لیڈر کے گھر کے باہر سے پولیس اٹھا کر لے گئی۔
پیپلزپارٹی کے شریک چیئرمین صدرآصف زرداری لاہور کی مال روڈ سے چالیس کلومیٹر دور جدید بستی بحریہ ٹاؤن میں اپنی نوتعمیر شدہ قلعہ نما رہائش گاہ میں جمعے تک قیام پذیر رہے۔
اسی بارے میں
متعلقہ عنوانات
یہ رہائش گاہ بحریہ ٹاؤن کی انتظامیہ نے تعمیر کروا کر دی ہے۔
اس سے قطع نظر کہ یہ ملک ریاض کا تحفہ ہے یا صدر زرداری نے اس کی ادائیگی کی ہے، حقیقت یہ ہے کہ لاہور کے بحریہ ٹاؤن کے پراپرٹی ڈیلر بہت خوش ہیں کیونکہ یہاں بلاول ہاؤس بننے سے ان کے کاروبار میں اضافہ ہوا ہے اور پلاٹس کے نرخ بڑھ گئے ہیں۔
دور افتادہ پر سکون بحریہ ٹاؤن میں چہل پہل شروع ہوگئی ہے، جگہ جگہ پولیس اہلکارتعینات ہیں،ہیلی کاپٹر اڑتے اوراترتے ہیں اور قیمتی گاڑیوں کے قافلے آتے جاتے دکھائی دیتے ہیں،مختلف مقامات پر پیپلز پارٹی کے جھنڈے اوربینرلگ گئےہیں،جو جگہ بچ ہے وہاں بحریہ ٹاؤن کی انتظامیہ نے خود بلاول ہاؤس کے راستے کی نشاندہی کے لیے بورڈ لگا دیئے ہیں۔
تین کلومیٹر کی ایک سڑک کی ہنگامی تعمیر شروع ہوگئی ہے۔اس سڑک کی تعمیر ایک سرکاری محکمے نے اس لیے رکوا دی تھی کہ یہ سڑک اس کی اراضی پربنائی جارہی تھی۔
لیکن معاملہ صرف بحریہ ٹاؤن کا نہیں ہے بلکہ لاہور میں مستقل بلاول ہاؤس کی تعمیر کی پاکستانی سیاست میں اہمیت کا ہے۔پیپلز پارٹی کی صف اول کی تمام قیادت ہاتھ باندھے اس بلاول ہاؤس میں حاضر ہوتی ہے۔
پیپلز پارٹی کی کوریج پر مامور ایک نجی ٹی وی کے سیاسی رپورٹر لیاقت انصاری بلاول ہاؤس کے باہر ملے۔ انہوں نے کہا کہ وہ بہت خوش ہیں کیونکہ اب انہیں لاہور سے مرکزی خبریں دینے کا موقع ملے گا کیونکہ اس سے پہلے لاہور میں پیپلز پارٹی کے صوبائی سطح کے لیڈر ہی دستیاب ہوتے تھے۔
صحافی بھی اس طبقے میں شامل ہیں جو بلاول ہاؤس کے دور ہونے کا شکوہ کرتے ہیں۔
پارٹی رہنماؤں کے لیے بلاول ہاؤس تک پہنچنا کوئی مسئلہ نہیں ہے کیونکہ عموماً ان کی ملاقات پہلے سے طے ہوتی ہے لیکن عام کارکن اور شہری کے لیے یہ مقام ممنوع ہے۔
پولیس اہلکار بلاول ہاؤس سے دو کلومیٹر دور ہی عام شہری کوروک لیتے ہیں۔ناکے پر تعینات ایک تھانیدار نے کہا کہ یہاں سے صرف وی آئی پی گزرسکتے ہیں اور ان کے آنے کی اطلاع انہیں وائرلیس پر دی جاتی ہے۔انہوں نے کہا کہ یہ صدر صاحب کی رہائش گاہ ہے اس لیے عام شہریوں کو یہاں سے گزرنے کی اجازت نہیں ہے۔
پیپلز پارٹی کے غریب کارکن اپنے لیڈر کی لاہور میں عالی شان رہائش گاہ کی تعمیر سے خوش تو ہیں لیکن ابھی تک بیشتر کو یہ سمجھ نہیں آئی کہ وہ یہاں تک پہنچیں گے کیسے؟جہاں تک آخری بس سٹاپ ہے وہاں سے بھی بلاول ہاؤس تین کلومیٹر کے پیدل فاصلے پر ہے لیکن وہ جیالا ہی کیا جو ان چھوٹی موٹی رکاوٹوں کوخاطر میں لائے۔
ڈیرہ غازی خان سے پیپلز پارٹی کے کارکن شبیر آصف روزگار کا مطالبہ لیے چلے تو بلاول ہاؤس پہنچ کر ہی دم لیا۔
ان کی آخری سواری وہ رکشہ تھا جس نے چارسو روپے کرایہ وصول کیا اور شبیر آصف کسی نہ کسی طرح پولیس کے ناکوں سے گزرتے بلاول ہاؤس کے سامنے پہنچ گئے۔
وہ پیپلز یوتھ آرگنائزیشن کے عہدیدار تھے،کئی گھنٹے سے بور کھڑے صحافیوں نے انہیں ہاتھوں ہاتھ لیا، ان سے بلاول ہاؤس تک پہنچنے کی تکلیفوں کا قصہ سنا اور آنے کا مقصد بھی پوچھا۔
انتخابات قریب ہیں اور کوئی بھی لیڈر یہ برداشت نہیں کرسکتا کہ ان کے کارکنوں کے تکالیف میڈیا اْجاگر ہوں۔
ڈیرہ غازی خان سے آنے والے شبیر آصف سے جب میڈیا کی توجہ ہٹی تو کچھ ہی دیر بعد پولیس اہلکار انہیں اپنی گاڑی میں بٹھا کر لے گئے۔
ہوسکتا ہے کہ تھوڑی نصیحت کے بعد انہیں بلاول ہاؤس سے کہیں دور لے جاکر چھوڑدیا گیا ہو لیکن سیاسی کارکن سمجھتے ہیں کہ شبیر آصف کی نواحی علاقے میں اپنے لیڈر کی رہائش گاہ پر آنے اور واپس جانے کی تکلیف کو محسوس کرنا بھی لیڈر کی ذمہ داری ہے۔
اس طرح کی تکلیف اٹھانے والے صرف پیپلز پارٹی کے کارکن ہی نہیں ہیں بلکہ مسلم لیگ نون کے کارکن پانچ سال سے پارٹی رہنما کے نواحی علاقے میں رہنے کے شوق کو بھگت رہے ہیں۔
نواز شریف کا رائے ونڈ فارم ہاؤس، بلاول ہاؤس سے کچھ زیادہ فاصلے پر نہیں ہے۔
Courtesy: BBC URDU
No comments:
Post a Comment