-1 وصیت کرنا تمام مسلمانوں پر فرض ہے۔ (فٹ نوٹ 1)2:180
-2 ماں باپ عزیز و اقارب کے لیے وصیت 2:180
-3 بیوہ کی ضروریات زندگی کے لیے وصیت2:240
-4 زبانی و تحریری وصیت میں گواہوں کی ضرورت‘ طریقہ کار۔ 5:106-108
-5 ترکہ میں مردوں اور عورتوں دونوں کے حصے اللہ نے مقرر کیے ہیں۔ 4:7
-6 ترکہ کی تقسیم سے پہلے وصیت کے مطابق جائیداد کی تقسیم اور قرض کی ادائیگی لاینفک ہے۔ 4:11-12
-7 متوفی کی وصیت پوری کرنے کے بعد جو بچ جائے اس کی تقسیم کے بارے میں احکام(فٹ نوٹ 2 ) 4:11-12
-8 مثلاً لڑکے‘ لڑکی‘ والدین‘ بھائیوں کو کس تناسب سے ملے۔ (فٹ نوٹ 3)
-9 متوفی نے اگر کسی غیررشتہ دار کو کچھ دینے کی وصیت کی ہو تو اسے اخلاقاً پہلے دے کر باقی ماندہ مال کی تقسیم کرو۔ 4:33
-10 ان احکامات کی خلاف ورزی موجب عذاب ہے۔ 4:13-14
-11 کلالہ کی صورت میں ترکہ کی تقسیم کی تفصیل 4:177
-12 اگر کوئی شخص محسوس کرے کہ وصیت میں انصاف سے کام نہیں لیا گیا تو وہ وارثوں میں صلح کرا دے۔ 2:182
فٹ نوٹ 1
قرآن کریم میں کوئی حکم دینے کی ابتدا اگر لفظ کتب سے ہو تو وہ حکم ہر لحاظ سے مسلموں پر فرض قرار پاجاتا ہے۔
مثلاً کتب علیکم القتال 2:216 تم پر جنگ کرنا فرض کیا گیا۔
کتب علیکم الصیام2:181 تم پر روزے فرض کیے گئے۔
اسی طرح کتب علیکم الوصیتہ 2:180 تم پر وصیت کرنا فرض قرار دیا گیا۔
* معاشرتی و سماجی لحاظ سے بھی اس مسئلہ پر عمومی نگاہ ڈالیں۔ ہمارے مسلم معاشرہ میں وصیت کی عدم موجودگی پشت درپشت خاندانی عداوتوں‘ خون ریزیوں‘ عدالتوں میں مقدموں کی بھرمار کا باعث بنتی ہے۔
ترکہ کی تقسیم کے متعلق ہمارے مروجہ فقہی قوانین کے مقابلے میں مغربی ملکوں کے قوانین وراثت قرآن حکیم کے اصولوں کے زیادہ قریب ہے۔
فٹ نمبر2
یہ نقطہ نہایت اہم اور توجہ کا متقاضی ہے اسے اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے۔ اگر وصیت (will) نہ زبانی کہی گئی نہ لکھی گئی یا وصیت تو کی گئی مگر پورے ترکہ اثاثہ کومحیط (Cover) نہیں کرتی تو صرف اس صورت میں قرآن کے احکام وراثت کے تحت اس ترکہ کی تقسیم ہوگی۔
مثلاً ایک شخص ایک مکان ایک موٹرکار اور ایک لاکھ روپیہ نقد بغیر وصیت چھوڑ کر فوت ہوجاتا ہے تو اس صورت میں قرآن کے احکام وراثت کا پورے ترکہ پر اطلاق ہوگا۔ اگر وہ شخص وصیت نامہ میں مکان بیوی کے نام موٹر کار بیٹی کو اور دس ہزار روپیہ کسی دوست‘ ملازم یا کسی رفاحی‘ خیراتی ادارے کو وصیت کر جاتا ہے بقایا نوے ہزار روپیہ کے بارے میں وصیت نہیں کی تو اس صورت میں صرف اور صرف 90 ہزار روپے قرآنی احکام وراثت کے تحت وارثوں (اس میں بیوی اور بیٹی شامل ہیں) میں تقسیم ہوں گے۔
نوٹ:مگرحکومت پاکستان کے قانون وراثت کی رُو سے ، جو اسلامی فقہ کی بنیاد پر مرتب ہوا تھا، عملاً ترکہ کی تقسیم جائیداد کے صرف 1/3 حصہ کی وصیت کی جاسکتی ہے۔ 80-90 سال پرانے قانون میں قرآنی احکامِ وراثت یا کم از کم یورپین ممالک کے قوانین کی حد تک ہی تبدیلی کر لی جائے تو بے شمار مشکلات کا ازلہ ہوجائے گا۔ بہتر یہی ہے کہ متوفی اپنی زندگی میں ہی بیشتر اثاثہ مستحق افراد میں تقسیم کردے۔
وصیت نامہ پر وکیل کی موجودگی میں دو گواہوں (جو دوست یا واقف کار بھی ہو سکتے ہیں) کے بھی دستخط ہوں ۔ گواہوں کا وصیت نامہ پڑھنا ضروری نہیں۔ اُن کی گواہی اور دستخطوں کا اصل بنیادی مقصد یہ تصدیق کرنا ہوتا ہے کہ متوفی نے اپنے ہوش وحواس قائم رکھتے ہوئے اور بغیر کسی دباؤ کے اپنی مرضی سے یہ دستخط کئے ہیں۔
فٹ نوٹ نمبر3
لڑکے کو لڑکی سے دوگنا کیوں ملتا ہے اس کی چند ایک وجوہات ہیں۔ لڑکی والدین کے ترکے سے بھی حاصل کرتی ہے اور خاوند کی وفات پر بھی اسے ملتا ہے اور بیٹے کی موت پر بھی حصہ ملتا ہے اور اہم امر یہ ہے کہ قرآن کی تعلیم کے مطابق مرد کنبہ کی کفالت کا ذمہ دار ہوتا ہے۔ لڑکی پرچونکہ یہ ذمہ داری بھی نہیں ہوتی لہٰذا اسے لڑکے سے نصف حصہ ملتا ہے۔
فٹ نوٹ نمبر4
وصیت کے لئے چند امور بطورِخاص مد نظر رکھیں۔ وصیت نامہ پر وقت گذرنے کے ساتھ گاہے بگاہے حالات کے مطابق نظر ثانی ضرورکریں۔ تبدیلی ایک علیحدہ کاغذپر مجاز وکیل کی موجودگی اور اس کے دستخط کے ساتھ اپنے دستخط کریں۔ اِسے Codicil اِضافی نوٹ کہتے ہیں۔
ایک رجسٹرڈ M.B.B.S. ڈاکٹر سے میڈیکل سر ٹیفکیٹ بھی احتیاطاً حاصل کر لیں کہ ’’آپ کی صحت کیسی ہے؟ کون کون سے عوارض ہیں ۔ اِس میںیہ وضاحت ضرور ہوآپ کو کسی قسم کی ذہنی بیماری نہیں ہے اور ہوش وحواس نارمل ہیں۔
وصیت نامہ سے متعلقہ کاغذات ودستاویزات مثلاًملکیت جائیداد‘ انشورنس پالیسیاں‘ موٹر کار‘ بنک اکاؤنٹ‘ پیدائش سر ٹیفکیٹ‘ نکاح نامہ وغیرہ ایک مضبوط سیل بکس میں رکھیں اور لواحقین کو علم ہونا چاہئے کہ یہ کہاں پررکھا گیاہے یعنی گھر یا بنک لاکر میں ہے۔ ہر کاغذ کی فوٹو کاپی بھی بنوا لیں۔ بہتر ہوگا کہ اِن سب کی مجسٹریٹ سے تصدیق بھی کروالیں۔
No comments:
Post a Comment