Tuesday, December 17, 2013

فرقہ بندی اور قرآن (حسین قیصرانی)









اللہ تعالیٰ نے قرآنِ کریم کے نازل کرنے کا مقصد یہ بتایا ہے کہ وہ ان تمام اختلافات کو مٹا کر‘ اللہ کا دین قائم کرے گا اور فرقوں اور گروہوں میں بٹے ہوئے انسانوں کو ایک امتِ واحدہ میں تبدیل کر دے گا۔
وَمَآ اَنْزَلْنَا عَلَیْکَ الْکِتٰبَ اِلّاَ لِتُبَیِنَّ لَھُمُ الَّذِی اخْتَلَفُوْا فِیْہِ۔۔۔ (16:64)
(اے رسول صلی اللہ علیہ وسلم!) آپ پر یہ کتاب صرف اس لئے نازل کی گئی ہے کہ جن معاملات میں یہ لوگ آپس میں اختلافات کرتے ہیں‘ آپ ان کی وضاحت کر دیں۔

اس سے یہ حقیقت نکھر کر سامنے آگئی کہ قرآنِ کریم کا اہم ترین مقصد اختلافات کو مٹا کر دین کی وحدت کا قیام ہے۔ قرآنِ کریم نے مسلمانوں سے واضح الفاظ میں کہہ دیا کہ
وَلَا تَکُوْنُوْا مِنَ الْمُشْرِکِیْن O مِنَ الَّذِیْنَ فَرَّقُوْا دِیْنَھُمْ وَ کَانُوْا شِیَعًا کُلُّ حِزْبٍ بِمَا لَدَیْھِمْ فَرِحُوْنَ (30:31-32)۔
اور پھر سے مشرک نہ بن جانا __ یعنی ان لوگوں میں سے نہ ہوجانا کہ جنہوں نے اپنے دین کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیا‘ اور اس طرح اُمتِ واحدہ رہنے کے بجائے‘ مختلف فرقوں میں تقسیم ہو گئے۔ فرقو ں میں تقسیم ہو جانے کے بعد حالت یہ ہوجاتی ہے کہ ہر فرقہ سمجھتا ہے کہ جس طریقے پر ہم چل رہے ہیں‘ وہی حق اور صداقت کی راہ ہے۔ اس لئے وہ اپنے آپ میں مگن ہو کر بیٹھ جاتا ہے۔
اور رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ارشاد فرمادیا کہ
اِنَّ الَّذِیْنَ فَرَّقُوْا دِیْنَھُمْ وَکَانُوْا شِیَعًا لَّسْتَ مِنْھُمْ فِیْ شَیْءٍ (6:159)
جو لوگ اپنے دین میں تفرقہ پیدا کر دیں‘ اور ایک فرقہ بن کر بیٹھ جائیں‘ اے رسول ! آپ کا اُن سے کوئی تعلق نہیں۔

مسجدِ ضرار
رسولؐ اللہ کے زمانے میں بعض تفرقہ انگیزوں نے ایک نئی مسجد تعمیر کی تو قرآن نے جس شدت سے اس کی مخالفت کی اس کا اندازہ سورہ توبہ کی متعلقہ آیات سے لگ سکتا ہے۔ سنئے ! اور غور سے سنئے کہ قرآن اس باب میں کیا کہتا ہے وَالَّذِیْنَ اتَّخَذُوْا مَسْجِدًا ضِرَارًا ۔۔۔ (9:107) ’’جن لوگوں نے اس غرض سے مسجد تعمیر کرائی کہ اس سے ملت اسلامیہ اور خود دین کو نقصان پہنچایا جائے‘‘ وَ کُفْرًا’’اور کفر کی حمایت کی جائے یا کفر کی روش اختیار کی جائے۔‘‘
وَّ تَفْرِیْقًا بَیْنَ الْمُؤْمِنِیْنَ۔۔۔ ’’یعنی اس غرض سے کہ مسلمانوں میں تفرقہ پیدا کیا جائے‘‘۔ آپ اس مسجد کو مسجد سمجھتے ہیں؟ یہ مسجد نہیں۔ اِرْصَادًا لِمَنْ حَارَبَ اللّٰہَ وَرَسُوْلَہ‘ مِنْ قَبْلُ۔۔۔ ’’یہ اُس گروہ کے گھات لگانے کے لئے ہے جو اس سے پہلے اللہ اور رسول (نظامِ خداوندی) کے دشمن تھے‘‘۔ یعنی یہ مسجد نہیں بلکہ یہ وہ قلعہ ہے جس کے اندراللہ اور رسول کے دشمن پناہ لے کر دین کو نقصان پہنچانے کی مذموم کوشش کریں گے۔ وَلَیَحْلِفُنَّ اِنْ اَرَدْنَآ اِلَّا الْحُسْنٰی۔۔۔ ’’یہ قسمیں کھا کھا کر کہیں گے کہ اس مسجد کی تعمیر سے ہمارا اِرادہ تو صرف بھلائی ہی ہے‘‘۔ وَ اللّٰہُ یَشْہَدُ اِنَھُمْ لَکٰذِبُوْنَ O ۔۔۔ مگر اللہ گواہ ہے کہ یہ یکسر جھوٹے ہیں۔‘‘ لاَ تَقُمْ فِیْہِ اَبَدًا۔۔۔ ’’اے رسول! آپ اس مسجد میں ایک قدم بھی نہ رکھنا‘‘ (9:107-108)۔ چنانچہ تاریخ اس کی شہادت دیتی ہے کہ رسولؐ اللہ نے صحابہؓ کو بھیج کر اس مسجد کو گروا دیا۔
اس واقعہ سے آپ اندازہ لگایئے کہ اسلام میں فرقہ بندی کس قدر شدید اور سنگین جرم ہے۔
*۔۔۔*۔۔۔*
فرقوں کی کیفیت یہ ہوتی ہے کہ ایک گروہ‘ احکامِ شریعت پر ایک طرح سے عمل کرتا ہے‘ دوسرا گروہ دوسرے طریق سے۔ اور چونکہ ان میں سے ہر گروہ اپنے اپنے طریقِ عمل کی بنیاد ایک خاص عقیدہ پر رکھتا ہے‘ اس لئے عقیدہ اور عمل‘ فرقہ کی بنیاد بن جاتا ہے۔ اس طرح اُمت‘ عملی طور پر ‘ مختلف گروہوں میں تقسیم ہو جاتی ہے۔ یہ ہے جسے قرآنِ کریم نے ’’دین میں فرقہ‘‘ سے تعبیر کیا ہے۔ ولا تکونوا من المشرکینo من الذین فرقوا دینھم۔۔۔ (30:31-32) ۔ ان الذین فرقوا دینھم وکانوا شیعا لست منھم فی شیء۔۔۔(6:160)
دین میں تفرقہ‘ مذہبی فرقوں سے پڑتا ہے اور اس کی زندہ شہادت وہ تفرقہ ہے جو ہمارے موجودہ فرقوں کی وجہ سے اُمت میں پیدا ہوچکا ہے۔اس فرقہ بندی کو قرآنِ کریم نے مذکورہ بالا آیات میں شرک‘ کفر اور رسولؐ اللہ کے ساتھ تعلق ٹوٹ جانے سے تعبیر کیا ہے۔
دین‘ امت کو ایک راستہ پر چلاتا ہے‘ فرقے اس کے لئے مختلف راہیں تجویز کر دیتے ہیں اور اسی سے قرآنِ کریم نے منع کیاہے کہ وان ھذا صراطی مستقیما فاتبعوہ یہ ہے میرا سیدھا راستہ‘ سو تم اسی ایک راستہ کا اتباع کرو۔ ولا تتبع السبل مختلف راستوں کا اتباع مت کرو فتفرق بکم عن سبیلہ(6:153) ایسا کرو گے تو یہ مختلف راستے تمہیں اللہ تعالیٰ کے راستے سے ہٹا کر الگ الگ کر دیں گے۔
*۔۔۔*۔۔۔*
قرآن کے اس قدر واضح اور صریح احکام و ہدایات‘ تنبیہات و تاکیدات کی موجودگی میں‘ اُمت کا فرقوں میں تقسیم ہو جانا یقیناًایک حیرت انگیز واقعہ ہے۔ لیکن اس حقیقت سے کسے انکار ہو سکتا ہے کہ اُمت فرقوں میں تقسیم ہوئی اور یہ فرقے اب تک موجود ہیں۔
یاد رکھئے! وحدتِ امت‘ دین کی بنیادی شرط ہے۔ اگر یہ وحدت باقی نہ رہے تو پھر دین باقی نہیں رہتا۔
*۔۔۔*۔۔۔*
اب آپ فرقہ بندی اور فرقہ سازی کے متعلق قرآنِ کریم کی آیات اور اُن کا مفہوم ملاحظہ فرمائیں:
وَاعْتَصِمُوْا بِحَبْلِ اللّٰہِ جَمِیْعًا وَّلَا تَفَرَّقُوْا (3:103)۔
تم سب کے سب مل کر اللہ کی رسی(قرآن) کو مضبوطی سے تھامے رہو اور فرقوں میں مت بٹ جاؤ۔
وَاِنَّ ھٰذِہٖٓ اُمَّتُکُمْ اُمَّۃً وَّاحِدَۃً وَّ اَنَا رَبُّکُمْ فَاتَّقُوْنِ(23:52)۔
اے رسولو! یہ تمہاری جماعت اُمتِ واحدہ ہے۔ تمہاری وجہء جامعیت یہ ہے کہ میں تم سب کا نشوونما دینے والا ہوں۔ لہٰذا تم صرف میرے قوانین کی نگہداشت کرنا۔
وَلَا تَکُوْنُوْا مِنَ الْمُشْرِکِیْن O مِنَ الَّذِیْنَ فَرَّقُوْا دِیْنَھُمْ وَ کَانُوْا شِیَعًا کُلُّ حِزْبٍ بِمَا لَدَیْھِمْ فَرِحُوْنَ (30:31-32)۔
اور پھر سے مشرک نہ بن جانا __ یعنی ان لوگوں میں سے نہ ہوجانا کہ جنہوں نے اپنے دین کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیا‘ اور اس طرح اُمتِ واحدہ رہنے کے بجائے‘ مختلف فرقوں میں تقسیم ہو گئے۔ فرقو ں میں تقسیم ہو جانے کے بعد حالت یہ ہوجاتی ہے کہ ہر فرقہ سمجھتا ہے کہ جس طریقے پر ہم چل رہے ہیں‘ وہی حق اور صداقت کی راہ ہے۔ اس لئے وہ اپنے آپ میں مگن ہو کر بیٹھ جاتا ہے۔
وَلَا تَکُوْنُوْا کَالَّذِیْنَ تَفَرَّقُوْا وَ اخْتَلَفُوْا مِنْ بَعْدِ مَاجَآءَ ھُمُ الْبَیِّنٰتُ وَاُولٰٓکَ لَھُمْ عَذَاب‘ُ عَظِیْمُ(3:105)۔
دیکھنا تم بھی کہیں ان لوگوں کی طرح نہ ہوجانا جنہوں نے اللہ کی طرف سے واضح حقائق مل جانے کے بعد فرقے بنا لیے اور آپس میں اختلاف کرنے لگ گئے۔
ایسے لوگوں پر(جو فرقوں میں تقسیم ہو جاتے ہیں اور آپس میں اختلاف کرنے لگ جاتے ہیں) سخت عذاب مسلط کر دیا جاتا ہے۔
وَمَآ اَنْزَلْنَا عَلَیْکَ الْکِتٰبَ اِلّاَ لِتُبَیِنَّ لَھُمُ الَّذِی اخْتَلَفُوْا فِیْہِ (16:64)۔
(اے رسول!) آپ پر یہ کتاب صرف اس لئے نازل کی گئی ہے کہ جن امور میں یہ لوگ باہمی اختلافات کرتے ہیں‘ آپ ان کی وضاحت کر دیں۔
اَنْ اَقِیْموُا الدِّیْنَ وَلَا تَتَفَرَّقُوْا فِیْہِ۔۔۔ (42:13)
تم سب اسی دین کو قائم کرنا اور اس میں کسی قسم کا تفرقہ نہ پید اکر دینا۔
وَمَا تَفَرَّقُوْٓا اِلّاَ مِنْ بَعْدِ مَا جَآءَ ھُمُ الْعِلْمُ بَغْیاً بَیْنَھُم (42:14)۔
اللہ تعالیٰ کی طرف سے العلم (وحی) آجانے کے بعد (جس کا مقصد تمام اختلافات کو مٹا دینا ہے) باہمی تفرقہ کی گنجائش ہی نہیں رہتی۔
*۔۔۔*۔۔۔*
سوچئے کہ قرآنِ کریم کے اِن واضح احکامات کی روشنی میں‘ مسلمانوں میں فرقوں کا وجود کس طرح جائز قرار پا سکتا ہے؟ ہمیں چاہئے کہ فرقہ بندی سے بلند ہو کر اللہ تعالیٰ کے احکامات اور رسولِ کریم ﷺ کی تعلیمات کو اپنا شعار بنائیں۔ دوسرے فرقوں پر گمراہی یا کفر کے فتوے لگانے سے بچیں کیونکہ کفر واسلام کے تعین کا حق صرف قرآنی نظامِ حکومت کو حاصل ہے نہ کہ افراد
یا فرقوں کو۔
پروردگار سے دعا ہے کہ وہ توفیق عطا فرمائے کہ ہم فرقہ بندی سے بلند ہو کر خدمتِ دین کی سعادت حاصل کریں اور فرقہ پرستی کے سبب جاری تباہی سے ہم سب کو اپنے حفظ و امان میں رکھے!
والسلام
حسین قیصرانی
*۔۔۔*۔۔۔*

1 comment: