قرآنِ
کریم میں قیدیوں کی ایک قسم کے لئے "فی الرقاب" کی اصطلاح آئی ہے۔ اِس کے
معنی درحقیقت وہ لوگ ہیں جنہیں دورِ جہالت میں پکڑ کر غلام بنا لیا جاتا
تھا۔
اُس دور میں تو فی الرقاب (جن کی گردن میں طوق ڈال رکھا ہو) کی
ایک ہی قسم ہوتی تھی لیکن ہمارے اِس دورِ تہذیب میں اِس کی متعدد قسمیں ہیں
اور وہ قِسمیں ایسی ہیں کہ اُن کے طوق محسوس طور پر کہیں دکھائی نہیں
دیتے۔ حتیٰ کہ جن کی گردنوں میں وہ طوق پڑے ہوتے ہیں، خود انہیں بھی وہ
کہیں نظر نہیں آتے۔ لیکن وہ بندھے ہوئے اِس طرح ہوتے ہیں کہ اُن کے جسم تو
ۤآزاد ہوتے ہیں لیکن قلب و دماغ اور روح مقید۔
قرآن نے "بندھی ہوئ گردنوں" (فی الرقاب) کے چُھڑانے کو بڑا کارِ خیر بلکہ دین کا بنیادی تقاضا بتایا ہے (90:13)۔
ٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓ
قرآنِ
کریم میں ایک اور اہم اِصطلاح مُترفین (مادہ: ت ر ف) ہے۔ مُترفین ایسے لوگوں
کو کہتے ہیں جو خوش حالی اور عیش پرستی کی زندگی بسر کر رہے ہوں اور دولت
کا نشہ انہیں ایسا بدمَست کر دے کہ وہ اپنی مَن مانی کرتے جائیں اور انہیں
کوئی روکنے ٹوکنے والا نہ ہو۔ یہ وہی طبقہ ہے جسے ہمارے زمانے میں سرمایہ
دار ، جاگیر دار ، وڈیرہ کہا جاتا ہے ۔ قرآنِ کریم میں ہے کہ جس رسول نے
بھی دین کی دعوت دی‘ مترفین کے طبقہ نے سب سے پہلے اور سب سے بڑھ کر اس کی
مخالفت کی۔ اس سے واضح ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے بھیجا ہو ادینؔ نظامِ
سرمایہ داری، جاگیرداری کو ختم کرنا چاہتا تھا‘ اس لئے یہ طبقہ اس کی اس
شدت سے مخالفت کرتا تھا ۔ یہی شروع سے ہوتا چلا آیا ہے اور یہی آج بھی ہو
رہا ہے۔
واضح رہے کہ قرانِ کریم کی رُو سے مُرفہ الحالی (خوش حالی) کی
زندگی اللہ تعالیٰ کی نعمت ہے ۔۔۔۔۔۔ لیکن خوش حالی او رسرمایہ داری میں
بنیادی فرق ہے۔ سرمایہ دار‘ دوسروں کی محنت کی کمائی پر عیش کی زندگی بسر
کرتا ہے اور محنت کش طبقہ کی محنت کا استحصال کرکے‘ اسے اپنا محتاج بنا کر
رکھتا ہے ۔ اور وہ بے چارے اپنی اس احتیاج اور مجبوری کی وجہ سے‘ اس کے
محکوم اور فرمان پذیر رہتے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ کا نظامِ ربوبیت‘ عالمگیر
انسانیت کی خوش حالی چاہتا ہے اور اس طرح کہ اس میں نہ کوئی کسی دوسرے فرد
کا محتاج ہو نہ محکوم۔ اس بنا پر ‘ اللہ کا دین اور نظامِ سرمایہ داری ایک
دوسرے کی ضد ہی نہیں بلکہ ایک دوسرے کے دشمن ہیں۔ یہی وجہ ہے جو مترفین کی
طرف سے اللہ کے دین کی ہمیشہ مخالفت ہوتی ہے۔
اِنہی لوگوں کے لئے قرآنِ
کریم کی دوسری اصطلاح اَلْمَلَاءُ (مادہ: م۔ل۔ا) ہے۔ اس کے بنیادی معنی
ہیں وہ جن کے برتن ضروریاتِ زندگی سے بھرے ہوئے ہوں۔ اور مفہوم اس سے ہے‘
وہ لوگ جنہیں بکثرت دولت میسر ہو اور وہ اس دولت کی بنا پر قوم کے سردار
(صاحبِ اقتدار جیسے ہماریے موروثی سیاستدان) بن جائیں۔ قرآنِ کریم میں ہے
کہ دینؔ کی مخالفت میں یہ گروہ پیش پیش رہا ہے۔ اِسے مقصد صرف اپنی سرمایہ
داری، جاگیرداری اور اقتدار سے ہے۔ یہی لوگ نظامِ ملوکیت کے اکابرین اور
رؤسا‘ اور بادشاہ کے مشیر اور مصاحب ہوتے تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
قرآنِ
کریم کی کئی آیات میں دنیاوی زندگی کو لہو و لعبؔ سے تعبیر کیا گیا ہے۔ اس
کا غلط مفہوم لینے سے بہت سی غلطیاں پیدا ہو جاتی ہیں۔قرآنِ کریم‘ دنیاوی
زندگی کو بڑی اہمیت دیتا ہے اور اس کی خوشگواریوں کو اللہ تعالیٰ کے
انعامات سے تعبیر کرتا ہے۔ وہ اِسے نہایت (SERIOUSLY) لینے کی تاکید کرتا
ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ہی وہ یہ کہتا ہے کہ جب کبھی ایسا ہو کہ دنیا کے کسی
مفاد یا متاع (سامانِ زیست) اور مستقل اقدارِ
خداوندی میں تصادم ہو، ان میں (TIE) پڑ جائے تو اس وقت یہ سمجھو کہ متاعِ
دنیا‘ مستقل اقدار کے مقابلہ میں لہو و لعبؔ ہے۔ مستقل قدر کا تحفظ ان کے
مقابلہ میں بڑی بیش قیمت متاع ہے۔ اس لئے‘ اُس دنیاوی مفاد کو قربان کرکے‘
مستقل قدر کی حفاظت کرو کیونکہ مستقل اقدار کے تحفظ سے انسان کی حیاتِ
اُخروی سنورتی ہے اور حیاتِ اخروی کے مقابلہ میں حیاتِ ارضی بہرحال کم قیمت
ہے۔
یہ ہے صحیح مطلب حیاتِ دنیا کے لہو و لعب ہونے کا نہ یہ کہ
زندگی فی اصلہٖ بیکار‘ بے مقصد‘ کھیل تماشا ہے۔ قرآن کا یہ مقصد نہیں بلکہ
اس نے اس کے برعکس یہ کہا ہے کہ جو لوگ حیاتِ دنیا کو محض کھیل تماشا (لعب)
سمجھتے ہیں اور اسے (SERIOUSLY) نہیں لیتے‘ وہ تباہ ہوجاتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
No comments:
Post a Comment