Saturday, August 10, 2013

کیا انشورنس جائز ہے؟ (ایک نقطۂ نظر) ۔ INSURANCE AND ISLAM


جوں جوں معاشی تقاضے بڑھتے جاتے ہیں‘ اس قسم کے استفسارات کی تعداد میں بھی اضافہ ہوتا جاتا ہے کہ بینک کا سود جائز ہے یا ناجائز ‘ زمین بٹائی پر دی جا سکتی ہے یا نہیں‘ روپیہ لگا کر منافع میں حصہ دار بننا کیسا ہے ‘ پراویڈنٹ فنڈ کا منافع لیا جا سکتا ہے یا نہیں‘ انشورنس جائز ہے یا نہیں !!!۔

بات بینک کے سود‘ مضاربت‘ مزارعت‘ انشورنس وغیرہ کی نہیں۔ اصل بات یہ ہے کہ ہمارا موجودہ معاشی نظام ہی غیر قرآنی ہے اور ہم چاہتے یہ ہیں کہ کسی طرح اس غیر اسلامی نظام میں ’’اسلام‘‘ کا پیوند لگا کر اپنے آپ کو مطمئن کر لیں۔ یہ اطمینان فریب نفس سے زیادہ کچھ نہیں۔ کوئی غیر اسلامی نظام‘ پیوند سازی سے اسلامی نہیں بن سکتا۔ لہٰذا‘ غیر اسلامی نظامِ معیشت کو علیٰ حالہٖ رکھتے ہوئے‘ اس قسم کی بحثیں کچھ فائدہ نہیں دے سکتیں۔ اگر قرآن کا معاشی نظام قائم ہوجائے تو اس میں‘ ان میں سے کوئی سوال بھی پیدا نہیں ہوگا۔ آج ان سوالات کی نوعیت اسی قسم کی سمجھئے جیسے(مثلاً) ایک کمیونسٹ ‘ نظامِ سرمایہ داری کے تحت زندگی بسر کرتے ہوئے پوچھے کہ میں ذاتی جائیداد بنا سکتا ہوں یا نہیں؟

 اب انشورنس کو لیجئے۔ اس کی ضرورت اس لئے پڑتی ہے کہ ایک شخص سوچتا ہے کہ اگر کل کو اس پر کوئی حادثہ گزر جائے تو اس کا (یا اس کی موت کے بعد‘ اس کے بچوں کا) کیا بنے گا؟ قرآن کے معاشی نظام میں کسی شخص کو اس قسم کا خطرہ لا حق ہو ہی نہیں سکتا۔ اس نظام میں ہر ذی حیات کے سامانِ زیست (بنیادی ضروریاتِ زندگی) بہم پہنچانے کی ذمہ داری مملکت پر ہوتی ہے‘ اس لئے اگر کوئی شخص کسی وجہ سے کام کرنے سے معذور ہوجائے تو اسے اس کی فکر ہی نہیں ہو گی کہ وہ کھائے گا کہاں سے یا اگر وہ وفات پا جائے تو اس کے بچوں کا کیا بنے گا۔ لہٰذا‘ اس نظام میں انشورنس کی نہ ضرورت لاحق ہوتی ہے‘ نہ ہی اس کے جائز اور ناجائز ہونے کا سوال پید اہوتا ہے۔ اس میں ہر فرد اپنے اور اپنے بیوی بچوں کے مستقبل کے متعلق ہر طرح سے اَشورڈ  ہوتا ہے۔

لیکن آج (غیر اسلامی نظامِ معیشت میں) صورت یہ ہے کہ اگر کوئی فردِ کاسب (کمائی کرنے والا انسان)‘ کسی وجہ سے کام کاج کرنے سے معذور ہوجاتا ہے‘ یا اس کی موت ایسے حالات میں ہوجاتی ہے کہ اس کے پاس اثاثہ کوئی نہیں ہوتا‘ تو وہ خود اور اس کے بیوی بچے نانِ شبینہ تک کے محتاج ہوجاتے ہیں اور ان بیچاروں کا کوئی پرسانِ حال نہیں ہوتا۔ غیر قرآنی نظامِ معیشت(یعنی نظامِ سرمایہ داری) میں اس صورتِ حال سے بچنے کے لئے انشورنس کی اسکیم رائج کی گئی۔ اس سے‘ بہرحال‘ اس قسم کے واقعات میں‘ زندگی کے دن بسر کرنے کے لئے ایک سہارا مل جاتا ہے۔ اندریں حالات ‘ موجودہ نظام میں‘ اس اسکیم کو غنیمت سمجھنا چاہئے لیکن

!شیخ کہتا ہے کہ ہے یہ بھی حرام اے ساقی

یعنی ہمارے مذہبی پیشوا بجائے اس کے کہ موجودہ نظام کو حرام قرار دیں‘ اس کے اندر اس قسم کی سہولتوں کو حرام قرار دے دیتے ہیں۔ اور جب پوچھا جائے کہ صاحب! اگر یہ شخض انشورنس نہ کرائے اور کل کو اس پر اس قسم کا حادثہ گزر جائے تو اس کا اور اس کے بال بچوں کا کیا بنے گا‘ تو کہہ دیتے ہیں کہ یہ بتانا ہمارا کام نہیں ۔ ہمارا کام تو شریعت کا حکم بتانا ہے۔
یہی سوال قرآن کریم نے بھی اٹھایا تھا جب کہا تھا کہ

أَيَوَدُّ أَحَدُكُمْ أَن تَكُونَ لَهُ جَنَّةٌ مِّن نَّخِيلٍ وَأَعْنَابٍ تَجْرِي مِن تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ لَهُ فِيهَا مِن كُلِّ الثَّمَرَاتِ وَأَصَابَهُ الْكِبَرُ وَلَهُ ذُرِّيَّةٌ ضُعَفَاءُ فَأَصَابَهَا إِعْصَارٌ فِيهِ نَارٌ فَاحْتَرَقَتْ كَذَٰلِكَ يُبَيِّنُ اللَّهُ لَكُمُ الْآيَاتِ لَعَلَّكُمْ تَتَفَكَّرُونَ 2:266 

کیا تم میں سے کوئی شخص بھی یہ چاہے گا کہ 

(1) اس کے پاس کھجوروں اور انگوروں کا سرسبز شاداب باغ ہو جس میں پھل بکثرت آئیں۔
(2) وہ بوڑھا ہوجائے اور اس کے چھوٹے چھوٹے بچے ہوں۔
(3) کہ ایسے میں ایسی بادِ سموم چلے کہ اس باغ کو جلا کر راکھ کا ڈھیر بنا دے (اور اس طرح وہ پورے کا پورا کنبہ سامانِ زیست سے محروم رہ جائے)۔
(4) کیا تم میں سے کوئی بھی چاہے گا کہ اس کی ایسی حالت ہو جائے؟
اگر ایسا نہیں چاہتے تو پھر فکر وتدبر کی رو سے دیکھو کہ وہ کونسا قدم اٹھایا جائے جس میں ایسی صورت پیدا نہ ہو۔
ظاہر ہے کہ دنیا میں کوئی شخص بھی ایسا نہیں چاہے گا۔ قرآن نے اس کا اعترا ف کرانے کے بعد (کہ ان میں سے کوئی بھی ایسا نہیں چاہے گا) کہا کہ پھر تم ایسی آفت سے بچنے کا انتظام کیوں نہیں کرتے! اور وہ انتظام یہ ہے کہ تم قرآن کا تجویز کردہ معاشی نظام اپنے ہاں رائج کر لو۔ اس نظام میں کبھی ایسی شکل پیدا نہیں ہوگی۔
قرآنِ کریم نے اس کا یہ حل بتایا اوررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا نظام قائم کرکے دکھایا کہ یہی ان مشکلات کا قرار واقعی حل ہے۔
وہ نظام باقی نہ رہا اور دنیا میں نظامِ سرمایہ داری کا چلن عام ہو گیا۔ اس نظام میں بھی وہی سوال سامنے آیا جسے قرآن سامنے لایاتھا۔ اس نظام کے حاملین نے اس کا حل انشورنس کی صورت میں تجویز کیا۔ اس میں شبہ نہیں کہ یہ حل ویسا نہیں جیسا قرآنِ کریم نے تجویز کیا تھا‘ لیکن موجودہ غلط نظام میں یہ حل‘ جب تک قرآنی حل ممکن نہ ہو بہرحال غنیمت ہے اور دنیا اس سے فائدہ اٹھا رہی ہے۔ لیکن ہماری حالت یہ ہے کہ ہم اپنے ہاں قرآنی حل رائج نہیں کرتے اور دنیا نے جو حل تجویز کیا ہے‘ اسے اپنے اوپر حرام قرار دے لیتے ہیں۔ نتیجہ اس کا ظاہر ہے۔
قرآن نے (مندرہ بالا آیت میں) کہا تھا کہ تم سوچو کہ تمہیں کیا انتظام کرنا چاہیے، جس سے ایسی صورت پیدا نہ ہو سکے۔ لیکن ہمارے ہاں شریعت کے معاملہ میں سوچنے کو حرام قرار دے دیا گیا ہے۔

انشورنس کو ناجائز قرار دینے والے حضرات کی طرف سے دو دلائل پیش کئے جاتے ہیں ۔ ایک یہ کہ یہ چیز ’’توکل علی اللہ‘‘ کے خلاف ہے اور دوسرے یہ کہ اس میں سود شامل ہوتا ہے۔
جہاں تک ’’توکل علی اللہ‘‘ کا تعلق ہے‘ ہمارے یہ محترم بھائی توکل کا ایسا مفہوم پیش کرتے ہیں کہ جس سے یہ قوم اپاہجوں اور مفلوجوں کا گروہ بن کر رہ گئی ہے۔ ان کے پیش کردہ توکل علی اللہ کے مفہوم کی تردید تو روزمرہ کے واقعات کررہے ہیں۔ اگر توکل علی اللہ سے مراد یہ ہے کہ تم اپنے لئے کوئی حفاظتی تدبیر نہ کرو‘ کیونکہ رزق کی ذمہ داری اللہ نے اپنے اوپر لے رکھی ہے‘ تو یہ جو اس وقت دنیا کی اِتنی زیادہ آبادی رات کو بھوکی سوتی ہے اور ایک ایک قحط میں لاکھوں انسان بھوک سے مرجاتے ہیں یا فردِ کاسب (کمائی کرنے والے انسان) کی موت کے بعد‘ اس کے بیوی بچوں پر فاقے آنے شروع ہوجاتے ہیں ‘ تو اس وقت اللہ تعالیٰ کی یہ ذمہ داری کہاں چلی جاتی ہے؟
توکل علی اللہ کے معنی ہیں اللہ تعالیٰ کے تجویز کردہ نظام کی محکمیت پر پورا پورا اِعتماد ۔۔ یہ بھروسہ کہ اس نظام میں کبھی ایسا نہیں ہو سکتا کہ کوئی ذی حیات بھوکا رہ جائے۔ یہ اسی نظام کی محکمیت تھی جس کے پیش نظر حدیثِ مبارکہ ہےکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
اگر کسی بستی میں کوئی ایک فرد بھی رات کو بھوکا سوجائے تو اس بستی سے اللہ تعالیٰ کی حفاظت کی ذمہ داری ختم ہوجاتی ہے۔
یا جس ’’ذمہ داری‘‘ کی حضرت عمرؓ نے ان الفاظ میں تشریح کی تھی کہ
اگر دجلہ کے کنارے کوئی کتا بھی بھوک سے مرجائے تو بخدا عمرؓ سے ا س کی بھی باز پرس ہو گی۔
یہ تھا وہ نظام جس پر کامل بھروسہ کو ’’توکل علی اللہ‘‘ کہا گیا تھا۔
باقی رہا سود کا معاملہ ۔۔۔ اِس ضمن میں عرض ہے کہ ’’کارِ خیر‘‘ یا مسجد مدرسہ کی تمیر وغیرہ کے لئے جس قدر عطیات دئے اور لئے جاتے ہیں، اُس کے متعلق کبھی کسی نے غور کیا ہے کہ اس میں کس قدر حصہ سود کا ہوتا ہے؟ سود‘ موجودہ نظامِ سرمایہ داری کا خونِ رگِ حیات ہے۔ اس سے (اس نظام میں زندگی بسر کرنے والوں سے ) کس کو مفر ہو سکتا ہے؟

جو کچھ اوپرکہا گیا ہے اس کا ماحصل یہ ہے کہ موجودہ نظامِ معیشت سراسر غیر اسلامی ہے اور سود‘ انشورنس وغیرہ قسم کی اسکیمیں اس نظام کا لازمی جزو ہیں اور یقیناً غیراِسلامی۔ لہٰذا‘ جب تک ہم اس نظام کو گوارا کئے ہوئے ہیں‘ ہمیں اس شجرہ الذقوم کے برگ وبار کو بھی گوارا کرنا ہو گا۔
اور اگر ہم انہیں گوار نہیں کر سکتے اور رزقِ حلال کے متمنی ہیں تو اس کا علاج اس کے سوا کچھ نہیں کہ ہم موجودہ غیر قرآنی نظام کی جگہ ‘ قرآنی نظامِ معیشت رائج کریں۔ لیکن اگر ہماری روش یہی رہی کہ موجودہ نظام سرمایہ داری کو توعین مطابقِ اسلام قرار دیتے (یا سمجھتے) رہے اور اس کے برگ وبار کو حرام‘ تو یہ فریبِ نفس ہے جس سے عملی مشکلات کا حل نہیں مل سکتا۔ (ماخوذ)۔
* ۔۔۔ * ۔۔۔ *

No comments:

Post a Comment